صنعتیں کاٹن کی پانچ ملین بیلز کا بندوبست کرلیں اس سال نو ملین کاٹن کی پیداوارمتوقع ہے۔فی کس ہم ایک سو آٹھ کلو آٹاسالانہ کھاتے ہیں ہماری طلب سے ڈیڑھ ملین ٹن گندم زیادہ پیدا ہوئی ہے۔تین ملین ٹن درآمد بھی کررہے ہیں تاکہ 120دن کا اسٹریٹجک ریزرو پورا کیا جا سکے۔فوڈ ڈیش بورڈ بنانے جارہے ہیں۔اس میں فوڈ کی نقل وحمل کی روزانہ رپورٹ آئے گی۔زرعی اجناس کی درآمد کو روکنے کی طرف جارہے ہیں۔عالمی اداروں کے مطابق پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے ہر مارکیٹ میں مجسٹریٹ کو بٹھا رہے ہیں تاکہ ہر مارکیٹ میں مہنگائی کنٹرول ہو۔وزیر اعظم عمران خان30جون کو کسان کنویشن کررہے ہیں۔اس میں کسان پالیسی دے رہے ہیں۔معاشرے میں کسان،صارف اور صنعت کے مابین تواز ن برقرار رکھناہماری ترجیح ہے۔بجٹ میں کاٹن کیلئے چار اب روپے رکھے گے ہیں،حکومت بیس فیصد کاٹن کسان سے خریدیں گی تاکہ کسان کو نقصان نہ ہو گا۔ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ جمشید اقبال چیمہ نے ایف پی سی سی آئی کے ریجنل چیئرمین چوہدری محمد سلیم بھلر کی زیر صدارت منعقدہ ایف پی سی سی آئی ممبران کے خصوصی اجلاس کے موقع پر کیا۔
ایف پی سی سی آئی کے ریجنل چیئرمین چوہدری محمد سلیم بھلر نے کہاکہ کپاس کی فی من 5000روپے امدادی قیمت مقرر کی جائے اورکسانوں کو کم مارک اپ پر قرضے دئیے جائیں۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اگلے سالوں میں غذائی ضروریات میں اضافہ کیا جائے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اکثر زرعی قلت کا سامنا کرتا ہے۔زرعی پیداوار میں اضافہ کے لیے ہمیں نیشنل ایگرکلچریل ریسرچ سینٹر(این اے آر سی)جیسے اداروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
جمشید اقبال چیمہ نے مزید کہاکہ آٹا گندم کی امدادی قیمت بڑھانے سے مہنگا ہوا۔ہم عام آدمی کو سبسڈی دیتے رہیں گے۔جب آبادی بڑ ھتی ہے تو خوراک کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے۔اس وقت دنیا میں کاٹن،سویابین اور گندم سمیت چھ فصلیں مہنگی ہیں۔ہر چوک پر سرکاری قیمتوں کو عیاں کررہے ہیں تاکہ لوگوں کو بھی پتاہو کہ آج کے کیا نرخ ہیں۔گزشتہ سال سندھ میں کپاس کا ہدف چالیس فیصد کم حاصل ہوا جبکہ پنجاب نے 80 فیصد ہدف حاصل کیا۔اسی وجہ سے گزشتہ سال کاٹن کی پیداوار میں سیٹ بیک ہوا۔پنچاب میں ڈر تھا کہ کاٹن بہت کم لگے گی۔اکتیس سے بتیس لاکھ ایکڑ رقبہ پر کاٹن لگی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ بلوچستان میں ساڑھے تین لاکھ ایکڑ کاٹن لگی ہے۔اس سال کاٹن ستاون لاکھ بیلز سے نوے لاکھ بیلز پر لے جائیں گے۔۔ساٹھ لاکھ ایکڑ رقبہ چولستان کا موجود ہے۔وزیر اعظم اس رقبے کو کم پانی والی فیصلوں کپاس اور پھلوں کیلئے مختص کررہے ہیں۔دالیں،سویابین،زیتون،کاٹن کو بلوچستان میں بھی کاشت کررہے ہیں۔اگلے سات سال میں زرعی خام مال کی کمی نہیں ہو گی۔سمندر کیساتھ جہاں میٹھا پانی موجود ہے وہاں پام کے درخت لگا رہے ہیں۔تین ملین درخت لگنے پر پام آئل کی ضرورت پوری ہوگی۔زیتون کے درختوں پر بھرپور کام کررہے ہیں۔دنیا میں ہم زیتون کی پیدوار میں سب سے بڑا ملک بننے جارہے ہیں.اس سال زیتون کیلئے8 ارب روپے رکھا ہے۔لوئر دیر میں جنگلی زیتون موجود ہے جس کو کسانوں میں تقسیم کیا جائے گا تاکہ کرافٹنگ کر کے اعلیٰ قسم کا زیتون پیدا کر سکے۔
درختوں کے اضافے سے زیتون کے تیل میں خود کفیل ہوجائیں گے۔دیہی علاقوں میں سٹوریج سسٹم بنا رہے ہیں۔لائیو سٹاک کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر مکئی کی پیدوار بتیس لاکھ سے 80لاکھ پر لے جائیں گے.اس سال حکومت نے چھ سو اسی ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔یہ سبسڈی لوگوں کے روزگار کیلئے مختلف سیکٹرز میں رکھی گئی ہے۔ لہسن میں نئی ورائٹی متعارف کروائی،بیس کلو فی ایکڑ بیج دے رہے ہیں۔ادرک پر بھی کام کررہے ہیں منافع بخش زرعی اجناس پر جارہے ہیں۔دیہات میں جہاں چوک ہو گا وہاں گودام بنائے گے اس کام کے لیئے سود فری قرضہ دے رہے ہیں۔چین سے زرعی ماہرین لا رہے ہیں۔خوراک کے استعمال کے اجزا کو تعلیمی نصاب میں شامل کریں گے۔آٹا سستا کرنے کے لیئے حکومت سبسڈی دے گی۔