جب ہم کسی ڈاکٹرکے پاس علاج معالجے کی غرض سے جاتے ہیں تو وہ ہمارا چیک اپ کرنے کے بعد ایک پرچی پر دوائیاں لکھ دیتا ہے لیکن وہ لکھی گئی دوائیاں اتنی عجیب و غریب اور ٹیڑھی میڑھی تحریر میں لکھی ہوتی ہیں کہ ڈاکٹر کے علاوہ کوئی پڑھا لکھا انسان بھی نہیں پڑھ پاتا جس کے لیے ہمیں میڈیکل اسٹور پر موجود کیمسٹ کی مدد درکار ہوجاتی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر کی اس ٹیڑھی میڑھی تحریر کے پیچھے کیا راز پواشیدہ ہوتا ہے اور وہ سادہ ترین الفاط میںدوائیاں لکھنے کو ترجیح کیوں نہیں دیتے؟ آج ہم اسی حوالے سے جانیں گے۔ ماہرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی ٹیڑھی میڑھی تحریر مریضوں کو مزید الجھن میں مبتلا کرتی ہے کیونکہ مریض پہلے ہی اتنا پریشان حال ہوتا ہے کہ پھر ڈاکٹر کی پرچی دیکھ کر مزید تشویش کا شکار ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر تحریر عام فہم الفاط، صاف ستھری اور واضح ہو تو مریضوں کیلئے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اکیڈمی آف میڈیکل رائل کالجز کے مطابق مریض اپنے بوجھل ذہن اور بیماری کے باعث جسم کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔ کمزور اور بیماری سے اکتائے ہوئے مریض ادویات سے زیادہ توجہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹری نسخے میں دوا کی خوراک اور مقدار کو بھی اطالوی زبان یا پھر خراب لکھاوٹ میں لکھ دیا جاتا ہے یعنی دن میں ایک بار کھانے والی دوا کے آگے OD،دو بار کھانے والی خوراک کو BD اور تین بار کھانے والی دوا کے آگے TDS لکھا جاتا ہے۔ جبکہ صرف درد یا ضرورت پڑنے پر لینے والی دوا کے آگے SOS لکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ہم بار بار کیمسٹ کے پاس جاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں۔ بی بی سی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ہینڈ رائٹنگ کا انسانی دماغ پر مثبت اور منفی اثر بھی پڑتا ہے۔ یعنی اگر بری لکھائی ہو تو دیکھنے والے کا دل ہی خراب ہوجاتا ہے اور دلکش تحریر دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے اور ذہنی سکون ملتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ اکیڈمی آف میڈیکل رائل کالجزکے ماہرین نے ڈاکٹرز کو دوا تجویز کرتے ہوئے اور مرض کی ہسٹری لینے کے دوران تحریر کو سادہ اور آسان رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ اس سے نا صرف مریضوں کو سمجھنے میں آسان رہے گی بلکہ مریضوں پر اس کے خوشگوار اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اور ساتھ ہی مریض کی دو خریدنے کی پریشانی بھی دور ہوجائے گی۔