چار سال ہونے کو ہیں کہ پاکستانی قوم اس رمضان پیکیج سے محروم چلی آئی ہے جو شہباز شریف اور نواز شریف کی حکومیتں دیا کرتی تھیں۔شہباز شریف کی گڈ گورنس اور عوامی کام خاص کر رمضان المبارک میں عوام کو وافر مقدار میں اشیاء بغیر کسی لائن میں لگے اور شناختی کارڈ کی منہ دکھائی کے انکی ضرورت کے مطابق مہیا ہوتی تھیں۔ مگر جب سے پی۔ٹی۔آئی کی عوام دشمن حکومت آئی ہے عوام مکمل طور پر رل گئی ہے۔ کیونکہ وہ ایک ایک کلو گھی اور چینی کی خاطر پورا پورا دن لائن میں کھڑے ہونے کے بعد بھی رسوا ہو کر ذلت سے کوئی کلو دو کلو چیز حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس میں بھی پورا دن انتظار کے بعد سٹاک ختم ہونے کی وجہ سے خالی ہاتھ واپس جانا پڑتا ہے۔جبکہ انھی سٹور پر نواز شریف کے دور میں بغیر کسی مقدار کی گنتی کے ہر شخص اپنی ضرورت کی مناسبت سے خرید کرتا تھا۔
پھر ایک اور چیز کا خیال بھی رکھا جاتا تھا کہ رمضان کے شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی تمام چیزیں وافر مقدار میں ہر وقت موجود ہوتی تھیں اور لوگ رمضان کے شروع میں اشیاء خورد ونوش گھر میں رکھ کر روزے آرام سے گزارتے تھے۔مگر اب چار سالوں میں ماہ ِرمضان لوگوں کو لائنوں میں لگے لگے گزر جاتا ہے۔ اور کبھی بھی کسی بھی یوٹیلٹی سٹور پر پوری چیزیں میسر نہیں ہوئیں حالانکہ سبسڈی اتنی ہی ہے یعنی اربوں روپے مالیت کی رقم حکومت کے خزانے سے عوام کے لیے ریلیف کے نام پر جاری کروائی جاتی ہے مگر پتہ نہیں کو وہ عمران خان کی جیب میں جاتی ہے یا دیگر بیوروکریٹس کی جیب میں جاتی ہے اس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔کیونکہ عوام تو پورا پورا ماہ دھکے ہی کھاتے رہتے ہیں اور رمضان ختم بھی ہو جاتا ہے جبکہ سٹورکی شلفیں خالی ہی رہتی ہیں۔
اس ناایلی اور نالائقی کا اگر موازنہ کیا جائے توشہباز شریف اور نواز شریف کے برعکس عمران خان کی حکومت کی کارکردگی صفر ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی ان دونوں بھائیوں کی حکومت میں خامی تلاش کرے تو پہلے اسے عوام کو ذلت آمیز لائینوں میں پورا دن کھڑا دیکھنا چائیے پھر ان کو خالی ہاتھ لوٹتے گھر جاتے دیکھے یا پھر ذلت کے ساتھ شناختی کارڈ کا مطالبہ کرتے دیکھے کہ اگر شناختی کارڈ نہیں تو انہیں واپس بیھج دیا جاتا دیکھے جیسے وہ انڈیا کے شہری ہوں۔عمران خان کی حکومت میں صرف دو طبقوں کا فائدہ ہوا ایک یہ کہ بڑے بڑے مافیاز جنہوں نے اربوں روپے غریب عوام کی جیبوں سے لوٹے اور دوسرا وہ طبقہ جو ہاتھ پھیلاتا ہو جبکہ درمیانہ طبقہ جو متوسط طبقہ کہلاتا ہے اسکو اس حکومت نے بالکل زندہ درگور کر دیا ہے۔اور عمران خان کی حکومت ہمیشہ بڑے مافیازکے سامنے بے بس دکھائی دی بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان مافیاز کو عمران کی تائید حاصل ہے جو کہ خود اس میں حصہ دار ہے۔اور آج تک اس مافیا کو کنٹرول نہ کیا گیا۔
حکمرانوں کے علاوہ پاکستانی تاجر،دکاندار،ریڑھی بان اور دیگر تمام طبقہ جات ایسے لٹیرے ہیں کو وہ رمضان المبارک کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ کب آئے گا اور ہم چور بازاری کریں گے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں گے اور دس روپے کی چیز پچاس روپے میں فروخت کریں گے۔اس لحاظ سے پاکستانی قوم ایسی اخلاقی پستی،مذہبی رواداری سے مکمل عاری اورلالچی قوم ہے جس کی مثال دوسری اقوام میں نہیں ملتی۔رمضان میں کم تولنا،کم ناپنا،گھٹیا چیز فروخت کرنا،قیمت زیادہ وصول کرنا،دھوکہ دینا اور دیگر فراڈ پر مبنی عوام کو تنگ کرنے والے عمل ایک فیشن بن چکے ہیں۔مگر تمام ادارے، مجسٹریٹ اور ذمہ داران سب بے بس اور مافیاز کے سامنے کٹھ پتلی نظر آتے ہیں۔پٹرول پمپز پر دس لیٹر پٹرول صرف آٹھ لیٹر ہوتا ہے اور بازاروں میں ہر چیز میں اتنی ملاوٹ کے بندہ سوچ کر توبہ کرتا ہے کہ اتنے کیمیکل اور ناقص اور خطرے ناک اشیاء کی ملاوٹ کرتے ہیں جن سے مختلف بیماریاں پھیلتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر فوڈ مجسٹریٹ اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اور دیگر متعلقہ ادارے ھڈحرام اورفضول ثابت ہو رہے ہیں جن کے رہنے اور عوام کے ٹیکسوں سے ان کو تنخواہیں و مراعات دینا بے سود ہے۔