ایک ماہ کی ہنگامہ خیزی کے بعد بلآخر پی ڈی ایم حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم
منتخب ہو گے۔اس سارے عمل کا اگر بغور جائزہ لیں تو مولانا فضل الرحمان نے بڑی محنت اور ہمت کے سا تھ متحدہ اپوزیشن کونہ صرف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ تحریک کو کامیاب بنا کر پی ٹی آئی حکومت کوآؤٹ کر دیا۔ لیکن نظریہ ضرورت کے تحت اکٹھی ہوئی پی ڈی ایم کوہی بنیاد بنا کر سامراجی نظام کو ختم کرنے اور حکومت گرانے کی بین الاقوامی سازش کا ڈھنڈورا پیٹ کر عمران خان نے ایک بار پھر سے میدا ن سیاست کا پنڈال سجا ڈالا۔نئی کابینہ کی تشکیل بھی حکومت کے لیے ایک درد سر ہو گا کیو ں کہ تمام جماعتوں کو مناسب نمائندگی دیے بغیر حکومت بناناایک مشکل عمل ہو گا اور تحریک انصاف پوری طرح تیار کھڑی ہے کہ کب اس اتحاد میں ہلکی سی دراڑ نظر آے اور لوگوں کو ان کی اصلیت ظاہر ہو جائے۔
مختلف نظریات رکھنے والی پارٹیوں کو کسی ایک بات پے متفق کرنا بھی اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔لیکن بقول فواد حسن فواد متحدہ لیڈران کی سیاسی بصیرت کا جائزہ لیں تو اِن کے پاس پانچ چھ سو سال کا سیاسی تجربہ بنتا ہے۔اگر ملکی مفادات اور
گرتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال کو مد ِنطر رکھتے ہو ئےمدبرانہ فیصلے کیے جائیں تو اس سے بہتر کو ئی حکومت بن ہی نہیں سکتی۔پاکستان کے معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان اس حکومت کو قبل از وقت الیکشن کروانے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کر سکتاہےجسکی حکومت کو توقع بھی نہ ہو۔حکومت کے لیے سب سے مشکل مرحلہ کابینہ کی تشکیل ہو گا اور اگر اسی پر حکومتی اتحادی ایک دوسرے سے نالاں نظر آے تویہیں سے حکومت کے لیے تباہی کا آغاز ہو جائے گا۔اور عمران خان کی عوامی مقبولیت کو کم سمجنا بھی اِس حکومت کی خام خیالی ہو گا۔کیوں کہ سامراجی نظام اور بین الاقومی سازش کا بیانیہ بنا کر پی ٹی ائی عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب دیکھائی دیتی ہے۔اس لیے حکومت اور اِس کی اتحادی جماعتوں کے لیے امتحان کی گھڑی ہے اور اِس تمام کا دارمدار اتحادیوں کی نیتوں پرمنحصر ہے۔اور اگر حکومت اِس میں ناکام ہوئی تو عوام بغور اِس سارے پراسس کو دیکھ رہی ہے۔ متحدہ حکومتی ناکامی کی صورت میں عمران خان اِن تمام جماعتوں کو ناک آوٹ کرتے ہوئے دو تہائی اکژیت لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔پھر جو ہوگا وقت بتائے گا۔۔۔